Breaking

Friday, April 14, 2023

مسجد اقصیٰ میں آج بھی نمازیں خون سے ادا کی جاتی ہے



ہر سال کی طرح اس سال بھی مسجد اقصیٰ یہودیوں کے ظلم و ستم کا شکار ہے۔۔۔ آج بھی وہاں نمازیں  خون سے ادا کی جاتی ہیں۔۔۔ اور افطار لاشوں کو کندھوں پر اٹھاتے گزر جاتا ہے۔۔۔ مسجد اقصیٰ آج بھی کسی صلاح الدین ایوبی کی منتظر ہے۔۔۔ تاریخ کے کسی عہد میں کبھی بھی صلاح الدین ایوبی کی کمی اتنی محسوس نہیں ہوئی جتنی اب ہو رہی ہے۔ مسجد اقصیٰ امت مسلمہ کو پکار رہی ہے: ذرا دیکھ میری طرف۔۔ میری اہمیت و عظمت کو پہچان میں وہ مسجد ہوں جس کی سرزمین کو خالق ارض و سماء جل اللہ نے بابرکت قرار دیا ہے میں وہ مسجد ہوں جس کو دنیا کی افضل ترین قوم نے اپنا قبلہ اول بنایا۔ میں وہ مسجد ہوں جہاں سے حضور پاک کو معراج کروائی گئی تھی۔ میں وہ مسجد ہوں جہاں پر خاتم النبیین محمد  کی اقتداء میں جملہ انبیائے کرام نے نماز ادا فرمائی۔

میں وہ مسجد ہوں جسے دنیا کی دوسری مسجد ہونے کا شرف حاصل ہے۔ میں وہ مسجد ہوں جس کا شمار ان تین مساجد میں ہوتا ہے جس کی طرف بغرض عبادت کوچ کرنا جائز ہے۔ میں وہ مسجد ہوں کہ جو کوئی بھی اس میں نماز پڑھنے کے ارادہ سے آئے وہ ( گناہوں سے دھلا ہوا) ایسے لوٹتا ہے گویا کہ آج ہی اس کی ماں نے اسے جنم دیا ہو۔ میں وہ مسجد ہوں جس کی سرزمین پر حضرت عیسی علیہ السلام اُتریں گے اور وہیں پر دجال کو بھی قتل کریں گے۔ میں وہ مسجد ہوں جس کی سرزمین بروز قیامت ارض محشر ہوگی۔ اے نوجوان ! ذرا دیکھ تو سہی میں کتنی عظیم ہوں میں آج بھی منتظر ہوں سالوں قبل سفر پر بھیجے گئے اپنے بچے کا امید کے ساتھ انتظار کرنے والی ماں کی طرح۔۔

صلاح الدین ایوبی کی راہ تک رہی ہوں۔ میری آغوش میں کئی مائیں بہنیں لڑتے لڑتے جان کی بازی ہار جاتی ہیں کئی سپوت میری آغوش میں دم توڑتے ہیں۔ کہنے کو تو ستاون اسلامی ممالک والوں کا قبلہ اول ہوں لیکن میرے محافظوں کی تعداد میں صرف فلسطینی ہیں یوں تو میں سب کی امانت ہوں مگر قربانی فلسطین کی سرزمین پر رہنے والے دیتے ہیں۔

آج مجھے صہیونیوں نے یر غمال بنارکھا ہے۔

آئے دن میرے تقدس کو پامال کیا جارہا ہے


میری آباد کاری کے راستے میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں۔ فلسطینی آج بھی منتظر ہیں کسی بہادر لیڈر کے جو آزادی کا پروانہ لیے انکی جانب بڑھے یہاں پر میری امید جاگنے لگتی ہے جب ستاون اسلامی ممالک بے حسی کی چادر اوڑھے غفلت کی نیند میں پڑے ہوں تو ایک جامع مسجد رحمتہ للعالمین سے آواز گونجتی ہے سعادتوں والے سعد کی اے  اقصی اگر یہ قوم ہمارے ساتھ کھڑی ہو جائے تو ایک جمعہ تیرے صحن میں ادا کریں گے ہم۔۔ جب تمام حکمران کرسی کرسی کھیل رہے ہوں تو ایک مرد قلندر جامع مسجد رحمتہ للعالمین سے اٹھتا ہے تیری آزادی کا مقصد دیتا ہے۔

اے مسجد اقصی جان لو در پیش آزمائشیں۔۔ ہمارے اندر مظفر فتوحات کی گرد باد بنارہی ہے۔۔ اے مسجد اقصیٰ ! تیرے مبارک صحن میں گرنے والا امت کا ہر قطرہ خون، آج ہمارے دلوں میں پھٹتا ہوا آتش فشاں بن رہا ہے۔ تم مومنوں کے دلوں میں بستی ہو مسجد اقصیٰ ! شریانوں سے دل میں داخل ہوتے خون کی طرح ہو۔ اے مسجد اقصی مجھے یقین ہے ایک دن ہم بیت المقدس کے سات پرشکوہ دروازوں سے داخل ہونے والے اسلامی لشکر گلیوں سے سیلاب کی طرح گزرتے ہوئے تیرے صحن میں اتریں گے۔

پھر امت مسلمہ بیت المقدس پہ راج کرے گی اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ صلاح الدین ایوبی کی یاد تازہ کرے گی۔۔ اور عنقریب ایسا وقت آئے گا کہ القدس میں اللہ اکبر کی صدا گونجے گی اور امت مسلمہ وہاں فریضہ صلوۃ و تروایح ادا کرے گی۔ہر سال کی طرح اس سال بھی مسجد اقصیٰ یہودیوں کے ظلم و ستم کا شکار ہے۔۔۔ آج بھی وہاں نمازیں  خون سے ادا کی جاتی ہیں۔۔۔ اور افطار لاشوں کو کندھوں پر اٹھاتے گزر جاتا ہے۔۔۔ مسجد اقصیٰ آج بھی کسی صلاح الدین ایوبی کی منتظر ہے۔۔۔ تاریخ کے کسی عہد میں کبھی بھی صلاح الدین ایوبی کی کمی اتنی محسوس نہیں ہوئی جتنی اب ہو رہی ہے۔ مسجد اقصیٰ امت مسلمہ کو پکار رہی ہے:

ذرا دیکھ میری طرف۔۔ میری اہمیت و عظمت کو پہچان میں وہ مسجد ہوں جس کی سرزمین کو خالق ارض و سماء جل اللہ نے بابرکت قرار دیا ہے میں وہ مسجد ہوں جس کو دنیا کی افضل ترین قوم نے اپنا قبلہ اول بنایا۔ میں وہ مسجد ہوں جہاں سے حضور پاک کو معراج کروائی گئی تھی۔ میں وہ مسجد ہوں جہاں پر خاتم النبیین محمد  کی اقتداء میں جملہ انبیائے کرام نے نماز ادا فرمائی۔ میں وہ مسجد ہوں جسے دنیا کی دوسری مسجد ہونے کا شرف حاصل ہے۔ میں وہ مسجد ہوں جس کا شمار ان تین مساجد میں ہوتا ہے جس کی طرف بغرض عبادت کوچ کرنا جائز ہے۔

میں وہ مسجد ہوں کہ جو کوئی بھی اس میں نماز پڑھنے کے ارادہ سے آئے وہ ( گناہوں سے دھلا ہوا) ایسے لوٹتا ہے گویا کہ آج ہی اس کی ماں نے اسے جنم دیا ہو۔ میں وہ مسجد ہوں جس کی سرزمین پر حضرت عیسی علیہ السلام اُتریں گے اور وہیں پر دجال کو بھی قتل کریں گے۔ میں وہ مسجد ہوں جس کی سرزمین بروز قیامت ارض محشر ہوگی۔ اے نوجوان ! ذرا دیکھ تو سہی میں کتنی عظیم ہوں میں آج بھی منتظر ہوں سالوں قبل سفر پر بھیجے گئے اپنے بچے کا امید کے ساتھ انتظار کرنے والی ماں کی طرح۔۔

صلاح الدین ایوبی کی راہ تک رہی ہوں۔ میری آغوش میں کئی مائیں بہنیں لڑتے لڑتے جان کی بازی ہار جاتی ہیں کئی سپوت میری آغوش میں دم توڑتے ہیں۔ کہنے کو تو ستاون اسلامی ممالک والوں کا قبلہ اول ہوں لیکن میرے محافظوں کی تعداد میں صرف فلسطینی ہیں یوں تو میں سب کی امانت ہوں مگر قربانی فلسطین کی سرزمین پر رہنے والے دیتے ہیں آج مجھے صہیونیوں نے یر غمال بنارکھا ہے۔ آئے دن میرے تقدس کو پامال کیا جارہا ہے میری آباد کاری کے راستے میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں۔ فلسطینی آج بھی منتظر ہیں کسی بہادر لیڈر کے جو آزادی کا پروانہ لیے انکی جانب بڑھے یہاں پر میری امید جاگنے لگتی ہے جب ستاون اسلامی ممالک بے حسی کی چادر اوڑھے غفلت کی نیند میں پڑے ہوں تو ایک جامع مسجد رحمتہ للعالمین سے آواز گونجتی ہے سعادتوں والے سعد کی اے


 اقصی اگر یہ قوم ہمارے ساتھ کھڑی ہو جائے تو ایک جمعہ تیرے صحن میں ادا کریں گے ہم۔۔ جب تمام حکمران کرسی کرسی کھیل رہے ہوں تو ایک مرد قلندر جامع مسجد رحمتہ للعالمین سے اٹھتا ہے تیری آزادی کا مقصد دیتا ہے۔اے مسجد اقصی جان لو در پیش آزمائشیں۔۔ ہمارے اندر مظفر فتوحات کی گرد باد بنارہی ہے۔۔ اے مسجد اقصیٰ ! تیرے مبارک صحن میں گرنے والا امت کا ہر قطرہ خون، آج ہمارے دلوں میں پھٹتا ہوا آتش فشاں بن رہا ہے۔ تم مومنوں کے دلوں میں بستی ہو مسجد اقصیٰ ! شریانوں سے دل میں داخل ہوتے خون کی طرح ہو۔ اے مسجد اقصی مجھے یقین ہے ایک دن ہم بیت المقدس کے سات پرشکوہ دروازوں سے داخل ہونے والے اسلامی لشکر گلیوں سے سیلاب کی طرح گزرتے ہوئے تیرے صحن میں اتریں گے۔

پھر امت مسلمہ بیت المقدس پہ راج کرے گی اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ صلاح الدین ایوبی کی یاد تازہ کرے گی۔۔ اور عنقریب ایسا وقت آئے گا کہ القدس میں اللہ اکبر کی صدا گونجے گی اور امت مسلمہ وہاں فریضہ صلوۃ و تروایح ادا کرے گی۔ 

auto